انٹرنیٹ اور موبائل کے آج کے زمانے میں دیہات اور ڈاکوؤں کا قصہ عجیب تو لگتا ہے مگر ، متحد ہو کر شرپسندوں کے خلاف لڑنے کا اس کہانی میں جو سبق ہے وہ ہمیشہ یاد رکھے جانے کے قابل ہے۔
بہادر
عابد سورتی / Aabid Surti
(2)
(3)
(4)
اس کا کچھ پتا چلا ، جگا ؟
کس کا ؟
ہماری پچھلی ڈکیتی کا سراغ لگانے والے کا۔
اکبر تھا۔ خان صفدر کا بیٹا
ہوں ۔۔
کالج سے پڑھ کر نکلا ہے ۔۔۔
علاقے کی خدمت کا بھوت سوار ہے اس پر !
کیوں؟ کیا سوچا ہے اس کے لیے؟
موت ۔۔!
کھانس کھانس کر رات گزارنے والے بوڑھوں نے آدھی رات کے وقت گھوڑوں کی ٹاپیں سنیں !
تینوں گھوڑ سوار گاؤں کے چوک سے ذرا آگے ۔۔
۔۔ جانے پہچانے گھر کے پاس گھوڑوں سے اترے۔
کون ہے؟
بھیرو بادشاہ !
رات کے سناٹے میں بھیرو بادشاہ کا نام سنتے ہی خان صفدر کانپ اٹھا۔
اس نے فوراً دروازہ کھولا
تیرا بیٹا کہاں ہے خان؟
اکبر خان؟ وہ جئےگڑھ گیا ہوا ہے۔
وہ کہہ رہا تھا کہ بہادر سے ملنا ہے
خان دلاور کے بیٹے سے؟
ہاں !
آتا ہی ہوگا بس ابھی
تب تک ہمارے کھانے کا بندوبست کرو
خان صفدر اندر گیا۔ اس کی بیوی متوقع پریشانی کا سوچ کر گھبرا رہی تھی
یہ ۔۔ یہ لوگ ہم پر ضرور کوئی مصیبت ڈھائیں گے
تم بیکار کی فکر کرتی ہو بیگم۔ میں برسوں سے بادشاہ کا ساتھ دے رہا ہوں
ہوں ں ں ۔۔
بھیرو اور اس کے ساتھی کھانا کھا رہے تھے کہ دور سے کوئی آتا ہوا دکھائی دیا
کوئی آ رہا ہے ۔۔
یہ تو اکبر لگتا ہے!
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں