'شاہراہ کے لٹیرے' نامی اس کہانی کی چوتھی قسط میں آپ نے پڑھا کہ لٹیروں کے سردار نے ہوٹل کے اپنے کمرے میں اپنے تمام ساتھیوں کو گفتگو کے لیے بلایا ، سردار کا ارادہ تھا قومی شاہراہ سے گزرنے والی گاڑی سے سرکاری خزانے کو لوٹ لیا جائے جبکہ دوسری طرف خزانے والی سرکاری گاڑی خود بہادر کی نگرانی میں نکلنے والی تھی ۔۔۔ اب آپ آگے پڑھئے ۔۔۔
بہادر
عابد سورتی / Aabid Surti
(1)
(2)
(3)
(4)
اور گاڑی شاہراہ کی سمت نکل پڑی ۔۔۔
۔۔۔ سرکاری گاڑی کے پیچھے ایک کار میں جمیلہ ، بہادر کی چہیتی کتیا کرشمہ کے ساتھ رواں دواں تھی
مجھے بھی دیکھنا ہے کرشمہ کہ تم اس مہم میں کیا کمال کر دکھاتی ہو؟
سونے سے لدی ہوئی گاڑی سنسان شاہراہ پر تیزی سے چلی جا رہی تھی!
شام کے وقت شاہراہ کے دونوں طرف موجود جنگل ماحول میں گویا سنسنی خیزی پیدا کر رہے تھے ۔۔
بہادر خاصا چوکنا تھا اور بس کے آئینوں کے ذریعے چاروں طرف نظر رکھے ہوئے تھا
اچانک بجلی چمکی اور اس کی روشنی میں بہادر نے ایک آدمی کو سڑک کے عین درمیان کھڑے ہوئے دیکھا
کون ہے یہ آدمی؟ کیا کرنا چاہتا ہے؟
گاڑی میں موجود دیگر لوگوں نے بھی اسے دیکھا ۔۔
یہ تو کوئی بھوت لگتا ہے ۔۔
بخدا صرف دو چمکتی ہوئی آنکھیں نظر آ رہی ہیں!
بہادر نے اس آدمی کے قریب پہنچ کر تیزی سے بریک لگائے
افف! میرا سر ! یہ آدمی شاید مجھ پر کوئی تنویمی عمل کر رہا ہے!
تنویمی عمل کے الفاظ دہراتے ہوئے اچانک اس آدمی نے بہادر کو پہچان لیا!
بہادر !!
دارا ! تم !!
اچانک بہادر کو اپنے روبرو دیکھ کر دارا کچھ بدحواس سا ہو گیا !
دارا ! تمہارے تنویمی عمل کے مقابل میری ذہنی قوت اتنی جلد سرنگوں نہیں ہوگی!
حملہ !!
جگا اور اس کے ساتھی بھی دارا کے قریب آ پہنچے اور یوں پولیس اور لٹیروں میں تصادم برپا ہو گیا
دھائیں دھائیں
اچانک دارا نے اپنے ریوالور سے بہادر پر گولی چلا دی
۔۔۔ لیکن بہادر نے چشم زدن میں پیڑ کی آڑ میں چھلانگ لگا کر خود کو بچا لیا
اس دوران ۔۔۔
گولیوں کی آواز آ رہی ہے کرشمہ !
غررررر !
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں