پچھلی قسط میں آپ نے بہادر اور بھیرو بادشاہ کی ناکام بات چیت کے بارے میں پڑھا تھا۔ دوسری طرف بہادر کے حفاظتی دستے کے معائینے کے لیے پولیس چیف وشال تشریف لایا تھا اور وہ جوانوں کی ٹریننگ دیکھ کر بہت متاثر ہوا لیکن جوانوں کو بندوقیں فراہم نہ کرنے پر اپنی مجبوری بتائی۔ پولیس چیف کے رخصت ہوتے ہی ظالم شاہ کا ایک پیغام سنسناتا ہوا بہادر تک پہنچا ۔۔۔
بہادر
عابد سورتی / Aabid Surti
(2)
(3)
(4)
مبارک ہو بہادر ، تم نے بہترین حفاظتی دستہ تیار کیا ہے
مگر ہتھیاروں کے بغیر ۔۔۔۔ ہممم
ہاں ۔۔ ہاں ۔۔ کہو !
ہمیں بندوقیں بھی درکار ہیں
میں نے کہا تھا ناں کہ کچھ انتظار کرنا ہوگا
لیکن کب تک؟
جب تک اس دستے کی ایک منفرد شناخت قائم نہ ہو جائے
ایک بار پھر مبارک ہو
پولیس چیف وشال ، بہادر کے حفاظتی دستے کی ٹریننگ سے خوش ہو کر واپس چلا گیا
تھوڑی دیر بعد ہی نجانے کہاں سے ایک تیر سنسناتا ہوا آیا اور درخت کے تنے میں پیوست ہو گیا
تیر کے ساتھ کاغذ کا ایک پرزہ بھی بندھا ہے
ایک جوان نے تیر سے کاغذ کے پرزے کو علیحدہ کیا
اس چھٹی کی تحریر پڑھ کر بہادر کا منہ تمتما گیا مگر اس نے صبر و ضبط سے کام لیا
دوستو! ہمارے نام ایک پیغام آیا ہے ۔۔ کیا پڑھ کر سناؤں؟
ضرور ۔۔ ضرور !!
سب خاموش ہوئے تو بہادر اس کاغذ کی تحریر کو پڑھنے لگا
جئےگڑھ کے لوگو ۔۔ آٹھ دن کے اندر ایک کروڑ روپے پیش کرو ورنہ نتیجہ بہت برا ہوگا !! ظالم شاہ
ظالم شاہ جیسا ظالم ڈاکو اب ہمارے گاؤں پر دھاوا ڈالے گا کیا؟
پچھلے سال ہی میں نے اسے انسانی خون کو گلاس میں ڈال کر شربت کی طرح پیتے دیکھا تھا
بس؟ یہی کہنا ہے تمہیں؟؟
بہادر ! ظالم شاہ کا مقابلہ کرنے کے لیے ہمیں بندوقیں چاہیے ۔۔ کم سے کم ایک درجن !
نہیں ! وہ تمہیں ملنے والی نہیں!
مگر آپ ہی نے تو کہا تھا کہ ہماری ٹریننگ کے بعد ہمیں بندوقیں بھی دی جائیں گی
پولیس چیف وشال سے آج ہی میں نے اس تعلق سے بات کی تھی
پھر ؟ کیا کہا انہوں نے؟
ہمیں کسی معرکے میں پہلے اپنی انفرادیت اور اپنی طاقت کو ثابت کرنا ہوگا
تو کیا ہم اپنی قوت ثابت کرنے کے قابل نہیں؟
ہم نے اپنی طاقت کو ابھی ثابت ہی کہاں کیا ہے؟
سب جوان خاموش ہو گئے۔ تب بہادر نے آگے کہا ۔۔
یہ سنہرا موقع ہے ہمیں جتانا ہوگا کہ ہم کس لوہے سے بنے ہیں ۔۔ ہمیں دیگر گاؤں والوں کے لیے بھی مثال بننا ہے
ہمیں دنیا کو دکھانا ہے کہ بندوق اور پولیس کے بغیر بھی حفاظتی دستے گاؤں کو محفوظ اور پُرامن رکھ سکتے ہیں
اپنے اتحاد اور اپنی قوت ارادی سے !!
جیسے ہی آٹھ دن ختم ہوئے ظالم شاہ اپنے خونخوار ساتھیوں کے ہمراہ جئے گڑھ کی سمت چل پڑا
بھلا ہو بھیرو بادشاہ کا ، جس نے مجھے چمبل کے سب سے مالدار گاؤں کو لوٹنے کا موقع فراہم کیا
گاؤں کا سردار بہادر سے ملنے آیا
بہادر ! گاؤں والوں کا خیال ہے کہ ظالم ڈاکو کو رقم دے کر گاؤں کو تباہی و بربادی سے بچا لیا جائے
لیکن رقم دینے کا وقت تو اب ختم ہو چکا ہے سردار !
وہ ابھی گاؤں میں داخل تو نہیں ہوا ہے۔ گاؤں کے باہر ہی اس سے نپٹ لیں گے ہم
ادھر تیرانداز اپنے اپنے مورچے سنبھال رہے تھے
لو ! گن لینا ! پورے ایک کروڑ ہیں!!
لیکن سردار ! میں کہہ چکا ہوں کہ وقت بیت گیا ہے
رقم آپ ہی اپنے پاس رکھیں۔ 'اتحاد' کے جوان تو مقابلے کے لیے تیار ہیں
لیکن گاؤں کا سردار اپنی ہی بات پر مصر رہا
سارے گاؤں کی طرف سے میری تم سے التجا ہے بہادر ۔۔۔ یہ رقم دے کر ظالم شاہ سے چھٹکارہ حاصل کرو
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں