یہ مہاتما گاندھی کی کہانی ہے۔
بچوں کے لیے اسے تصویری کتابی شکل میں شائع کیا گیا تھا۔ اس کتاب کے پیش لفظ میں جواہر لعل نہرو نے لکھا تھا کہ:
گاندھی جی کی جیون کتھا ہمارے ماضی کے قیمتی تہذیبی ورثے کا ایک ضروری حصہ بن گئی ہے اور ہمارے حال پر بھی اثرانداز ہے۔ مجھے یقین ہے کہ آنے والی نسلیں اس عظیم کہانی پر حیرت کریں گی۔ اس لیے یہ بہتر ہے کہ ہمارے بچے ان کے بارے میں مزید کتابیں پڑھنے سے پہلے ان کی زندگی کی کہانی سے واقف ہو جائیں۔
یہ اردو تصویری کتاب پبلیکیشنز ڈویژن، وزارت اطلاعات و نشریات حکومت ہند کی جانب سے جولائی 1966 میں کلکتہ سے شائع ہوئی تھی، اور اس کے حقوق اسی ادارے کے پاس ہیں۔
متذکرہ ادارے کے شکریے کے ساتھ اردو کارٹون دنیا پر ، مہاتما گاندھی کی یہ کہانی 10 اقساط میں پیش کی جا رہی ہے۔
آرٹسٹ:
ایس۔ ڈی۔ ساونت / ایس۔ ڈی۔ باڈلکر
(1)
(2)
(3)
(4)
(5)
ہندوستان / پوربندر
ان کے دادا اتم چند اور بعد میں ان کے پتا کرم چند چھوٹی سی دیسی ریاست پوربندر کے وزیر اعلیٰ تھے
مہاتما گاندھی کے پتا کرم چند بڑے اصولوں کے آدمی تھے۔ سچے اور بہادر
موہن داس کرم چند گاندھی 2/اکتوربر/1869 کو اس مکان میں پیدا ہوئے تھے
ان کی ماں پتلی بائی پوجا کیے بغیر کھانا نہیں کھاتی تھیں
چترماس کے دنوں میں وہ سورج دیکھے بغیر کچھ نہیں کھاتی تھیں
دیکھو سورج نکل آیا
چلو ماں کو بتلائیں
ماں تم نے دیر کر دی سورج چھپ گیا
چلو کوئی بات نہیں بھگوان کی یہ مرضی ہے کہ میں آج کچھ نہ کھاؤں
1884-1876 / آزمائش کا دور
ایک انگریز انسپکٹر موہن داس کے اسکول کا معائنہ کرنے آیا
لڑکو! KETTLE کے ہجے کرو
دوسرے لڑکے کی کتاب دیکھ کر بتا دو
نہیں میں ایسا نہیں کروں گا
انسپکٹر کے جانے کے بعد ۔۔۔
بیوقوف! دیکھو تمام لڑکوں نے اس لفظ کا بالکل صحیح ہجے کیا
میں فریب کاری نہیں کر سکتا
صرف تیرہ سال کی عمر میں موہن داس کی شادی ہو گئی
موہن داس نے راجہ ہریش چندر کے بارے میں ایک ڈراما دیکھا جسے سچائی کی خاطر بہت دکھ جھیلنے پڑے تھے
میں اپنی سلطنت سے زیادہ سچائی کی قدر کرتا ہوں
یہ قصہ موہن داس کے ذہن میں جم کے رہ گیا
کیوں نہیں سب لوگ ہریش چندر کی طرح سچے ہو جاتے؟
1885-1883 / دو واقعات
موہن داس اپنے سے مضبوط اور دلیر لڑکوں کو رشک بھری نگاہوں سے دیکھتے تھے۔ ان کے خاندان کے لوگ سبزی خور تھے
جانتے ہو میں اتنا مضبوط کیسے ہوں؟ کیونکہ میں گوشت کھاتا ہوں!
میرے دوست کا کہنا صحیح ہوگا۔ اسی وجہ سے انگریز ہم پر حکومت کرتے ہیں کیونکہ ہم سبزی خور ہیں!
ایک دن موہن داس نے گوشت کھایا
اب میں بھی مضبوط اور دلیر بن جاؤں گا
ضرور ضرور !
مگر ان کے دماغ میں ہیجان برپا تھا
میرے دھرم میں گوشت کھانا منع ہے اور اس کی وجہ سے مجھے جھوٹ بھی بولنا پڑے گا
ایک بار ان کے بھائی پر قرض چڑھ گیا
خالص سونے کا یہ کڑا موجود ہے۔ میں اس میں سے تھوڑا سونا نکال دیتا ہوں۔
ہاں موہن اس طرح میرا قرض ادا ہو جائے گا
اس طرح قرض کا بوجھ اتر گیا
موہن داس اس جھوٹ کو برداشت نہیں کر سکتے تھے۔ انہوں نے اپنے بیمار پتا کے نام ایک چٹھی میں سارا حال لکھا اور چٹھی انہیں دے دی
پتا کے آنسوؤں نے موہن داس کے ضمیر کو مطمئن کر دیا
موہن داس کو اپنے والدین سے بےحد محبت تھی۔ اپنے پتا کی بیماری کے زمانہ میں انہوں نے ان کی بڑی خدمت کی۔ وہ مشکل سے سولہ سال کے تھے کہ ان کے پتاجی کا انتقال ہو گیا
1891-1887 / گاندھی - بار ایٹ لا
جب گاندھی جی نے ہائی اسکول کی تعلیم ختم کر لی تو ان کے خاندان کے ایک ہمدرد نے کہا
اگر تم اپنے پتا کی جگہ لینا چاہتے ہو تو تم وکیل بنو اور اس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ تم انگلینڈ جاؤ
موہن داس جانے کے لیے تیار ہو گئے۔ وہ اپنے چچا کی اجازت حاصل کرنے اور ان کی مدد لینے کے لیے چل پڑے
ان کے چچا نے انگلینڈ جانے کا فیصلہ ان کی ماں پتلی بائی پر چھوڑا۔ ان کے بھائی ان کے اخراجات کے لیے روپیہ جمع کرنے پر راضی ہو گئے
مگر بیٹے تم انگلینڈ میں غلط راستے پر پڑ جاؤ گے
ایک جین سادھو نے اس مشکل کا حل ڈھونڈ لیا۔ اس نے موہن داس کو قسم دلائی
میں قسم کھاتا ہوں کہ وہاں شراب عورت اور گوشت کو ہاتھ نہ لگاؤں گا
اب تم جا سکتے ہو!
انگلینڈ میں موہن داس نے لندن کے سبزی خوروں کی انجمن میں کافی دلچسپی لی اور اس کے ذریعے اونچے خیالات رکھنے والے کئی آدمیوں سے ان کی دوستی ہو گئی
وہاں انہوں نے پہلی بار گیتا پڑھی جس سے وہ کافی متاثر ہوئے۔ انہوں نے سادہ زندگی اختیار کی اور خود کے اندر نظم و ضبط پیدا کیا۔ وہ بیرسٹر بن کر ہندوستان لوٹے۔ بندرگاہ پر ان کے بھائی موجود تھے، انہوں نے بڑی دکھ بھری خبر سنائی
ماتا جی چل بسیں۔۔۔
ماں !
کاپی رائٹ حقوق کتاب لکھنے 60 سال تک ہی رہتے ہیں. اسکی بعد ان کتابوں کی ملکیت عوامی ہوجاتی ھے
جواب دیںحذف کریں